قومیں جب تاریخ کے بھنور میں پھنس جاتی ہیں،اس وقت ان کی مدد کرنے کے لیے صرف سیاسی لیڈر آگے نہیں آتے۔ سیاسی لیڈر بھی قوموں کے لیے اس وقت کارآمد ہوا کرتے ہیں جب قوموں کے دلوں اور دماغوں کو وہ عظیم انسان تیار کرتے ہیں جنہیں حکیم الامت کہا جاتا ہے۔ ہر قومی بیداری کے پیچھے ایک عظیم ذہن کی کاوش ہوا کرتی ہے۔ قیام پاکستان کے عظیم کارنامے کا سہرا ہم نے صرف قائد اعظم محمد علی جناح کے سر نہیں باندھا۔ اس تاریخ ساز کام میں اس عظیم انسان کا بھی ناقابل فراموش کردار تھا جس کو ہم حکیم الامت کہتے ہیں۔ جی ہاں! میں علامہ اقبال کی بات کر رہا ہوں۔ علامہ اقبال ہمارے لیے حکیم الامت ہیں اور رہیں گے۔ مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ خود علامہ اقبال کے لیے مولانا جلال الدین رومی ایک مرشد کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی فکری اور فنی نمود کے لیے رومی کی شاعری سے اس طرح روشنی حاصل کی جس طرح سورج سے چاند روشنی حاصل کرتا ہے۔ انہوں نے رومی کا جس گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اتنی گہرائی سے کسی نے رومی کے کلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ۔ان کی شاعری کو بہت سارے لوگوں نے پڑھا ہے۔ وہ ہمارے ماضی کے ایک ایسے شاعر تھے جن کے اشعار ہمارے آبا و اجداد کی گفتگو کا حصہ ہوا کرتے تھے ۔ رومی کے کلام پر آج تک تحقیق ہو رہی ہے اور ان کی فکر ی بلندیوں کا پتہ ہمیں اب تک مل رہا ہے۔ آج سے ایک صدی قبل علامہ اقبال نے جس طرح رومی کی شاعری اور ان کی شخصیت کا عظیم سراغ لگایا، وہ حیثیت آج تک کسی عالم کے مقدر کا حصہ نہیں بن سکی۔ جب ہم اقبال کے وہ اشعار پڑھتے ہیں جو انہوںنے رومی کے متعلق لکھے ہیں، ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے رومی کی شاعری سے کس طرح وہ مطالب اخذ کئے جو آج تک کسی سے دریافت نہ ہو سکے۔ اس کا ایک سبب تو علامہ اقبال کا عظیم اور باصلاحیت ذہن تھا مگر اس کے علاوہ علامہ اقبال نے جس طرح رومی سے محبت کی اور اور اسے سمجھا کہ اگر بیمار اور لاچار اقوام رومی کے پیغام کو مشعل راہ بنائیں گی تو ان کو منزل حاصل کرنے سے کوئی بھی قوت نہیں روک سکے گی۔ علامہ اقبال کو اس بات کا بھی دکھ تھا کہ تاریخ کے بطن سے اب ایسے عظیم انسان پیدا ہونا بند ہوگئے ہیں۔ اس لیے انہوں نے رومی کو یاد کرتے ہوئے لکھا تھا: نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم سے لالہ زاروں سے وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی تاریخ نے ایک بار نہیں بلکہ بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ جب بھی مسلمان بیدار ہوئے ہیں تو ان کے لیے کامیابیوں اور کامرانیوں کے باب رقم ہونے لگتے ہیں۔ اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ ایک حوالے سے عالم اسلام بحران کا شکار ہے۔ عالمی سطح پر مسلمانوں پر کو دباؤ بڑھ رہا ہے اور جس طرح مسلم امہ کا شیرازہ بکھر رہا ہے، بلکہ بکھر چکا ہے وہ سب کچھ درست ہو سکتا ہے مگر اس کی بنیادی شرط وہی ہے کہ ہم اپنے عظیم بزرگوں کے حضور میں فکری طور پر حاضر ہوں اور اپنے اعمال کو ان کی تعلیمات سے اس طرح ہم آہنگ کریں جس طرح اس فکر کا حق ہے ۔ اس صورت میں ہم دنیا میں پھر سے ابھر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم کو یہ بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ وقت ان افراد اور ان اقوام کو زیادہ سزا دیتا ہے جن سے اسے زیادہ توقعات ہوا کرتی ہیں۔ تاریخ نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی کروٹ لی ہے تب تاریخ نے تبدیلی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ آج ہم پھر تاریخ کے سامنے کھڑے ہیں مگر ہماری حالت اس فوج جیسی ہے جو فاتح لشکر کے سامنے بے بس کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ ہماری اس حالت زار کا سبب یہ ہے کہ ہم نے اپنی شناخت بھلا دی ہے۔ جس طرح اقبال نے کہا تھا کہ وہ فریب خوردہ شاہین کیا کرسکتا ہے جس کی پرورش کرگسوں میں ہوئی ہو۔ اسی طرح ہم نے بھی اپنے ماضی سے رشتہ توڑ لیا ہے۔ علامہ اقبال نے جب یہ شعر لکھا تھا : میں کہ میری شاعری عمر رفتہ کا سراغ میری تمام سر گزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو تب اصل میں وہ اپنے ماضی کی تلاش میں مبتلا نہیں تھے بلکہ وہ تاریخ کے اس دور سے توانائی حاصل کرنا چاہتے تھے جس دورمیں مسلمان شکست کا نہیں بلکہ فتح کا نام ہوا کرتا تھا۔ عالم اسلام پر آج عجیب سی مایوس کن کیفیت کا سایہ ہے۔ مسلم ممالک بیشمار دولت اور دنیا کے عظیم وسائل ہونے کے باوجود جس طرح پسپائی کی صورت میں نظر آ رہے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی روح بیمار ہے۔ دراصل رومی ہو یا اقبال ،ایسے حکیم انسان بیمار اقوام کے روحوں کا علاج کرتے ہیں لیکن ہم نے ان سے منہ موڑ رکھا ہے۔ ہماری سیاست اور ہماری اجتماعی زندگی سے وہ جذبہ ختم ہوگیا ہے جس جذبے کے تحت کبھی ہم نے وہ کارنامے سرانجام دیے تھے جن کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کتنے فخر سے لکھا تھا : دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے وہ قوم جس نے تاریخ کے عظیم کارنامے سرانجام دیے ہوں، آج جس طرح زمیں بوس ہے اس کا سبب صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم نے ان فکری سرچشموں سے منہ موڑ لیا ہے جوہماری قومی روح کو سیراب کیا کرتے تھے۔ جن کے لیے علامہ اقبال نے لکھا تھا: ’’ذرانم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘ ہم کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ مٹی صرف اس صورت میں سیراب ہوسکتی ہے اگر ہم ان فکری سرچشموں سے اپنے آپ کو فیضیاب کریںجو ہمارے آس پاس ہیں مگر ہمیں ان کی قدر قیمت کا اندازہ تک نہیں ہے۔ امریکہ اس وقت دنیا کا سب سے طاقتور اور امیر ملک ہے۔ مگر ہم سب کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ رومی کی کتابیں آج امریکہ میں ساری کتابوں سے زیادہ شائع ہوتی ہیں اور زیادہ پڑھی جاتی ہیں۔ اگر امریکہ رومی کے فکر اور فہم سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے تو پھر ہم نے اب تک رومی کے کلام سے وہ قوت کیوں حاصل نہیں کی جس کا پتہ ہم کو علامہ اقبال نے دیا تھا۔ علامہ اقبال نے صرف اتنا نہیں کہا تھا کہ رومی بیمار روحوں کا معالج ہے مگرانہوں نے سوال و جواب کی صورت ہمیں رومی کا فکر آسانی کے ساتھ فراہم کیا ہے۔ جس عظیم شخصیت کو علامہ اقبال اپنا مرشد مانتے ہیں ہم اس عظیم شخصیت سے اپنے موجودہ قومی بحران کا حل کیوں نہیں پوچھتے؟ ہم رومی کے فکری دروازے پر دستک کیوں نہیں دیتے؟ ہم نے اس رومی سے اپنا رشتہ کیوں منقطع کیا ہے جس رومی کے لیے اقبال کہتے ہیں: اے امام عاشقان درد مند یاد ہے مجھ کو ترا حرف بلند